سماجی زندگی میں انسان دو
طرح کے حالات سے گزرتاہے۔انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی
زندگی سے کہیں زیادہ اس کا تعلق اجتماعی زندگی سے
ہوتاہے؛ بلکہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وہ اسی اجتماعیت
سے وابستہ رہتا ہے؛ چوں کہ قدرت نے انسان کی فطرت اورمزاج میں تلون
رکھا ہے؛ اس لیے انسان کی زندگی میں اختلاف کا پایا
جانا نا گزیر ہے۔یہ اختلاف بعض دفعہ نزاع کی شکل اختیار
کر لیتاہے۔اور دو انسان آپس میں دست وگریبان تک ہوجاتے ہیں۔یہ
صورت ِحال ایک شریف آدمی کے مزاج کے خلاف ہے، اس صورتِ حال کو
ختم کرناچاہتاہے۔ظاہر ہے کہ اس طرح کے اختلافات کو ختم کر نے کے لیے کسی
تیسری چیز کو معیار اور صواب و خطا کے لیے میزان
بنانا پڑے گا؛اسی لیے دنیا کی ہر قوم اورہر مذہب میں
باہمی اختلافات سے نمٹنے اور مسائل کو حل کر نے کے لیے کسی نہ
کسی شکل میں قانون موجود رہاہے؛چنانچہ شریعتِ محمدی میں
بھی ہر قسم کے اختلافات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط اورپائیدار
قانون موجودہے ،جس سے انسان آسانی سے اپنے تنازعات کو حل کر سکتاہے۔اس
کام کوجو انجام دے اسے قاضی کہتے ہیں اور وہ جگہ جہاں باہمی
تنازعات میں اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ
دیا جائے اسے دارالقضاء یا شرعی عدالت کہتے ہیں۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کویہ حکم دیاہے کہ وہ اپنے جھگڑوں کوقرآن
وسنت کے مطابق حل کریں۔ قرآن کریم میں ہے: ”اے ایما
ن والو ! اللہ ، رسول… اور اپنے حاکموں کی اطاعت کروپس اگر تمہارے درمیان
جھگڑا ہوجائے تواس کے تصفیہ کے لیے تم اسے اللہ اور اس کے رسول(کے
نائبین) کے پاس لے جاؤ،اگر تم اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور آخر
ت پرایمان و یقین رکھتے ہو۔(سورة النساء:۵۹)
حضرت
علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے مجھ سے فرمایا : اے علی جب تمہارے پاس دو آدمیوں کامعا
ملہ آئے تو جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو کوئی فیصلہ نہ کرو۔
(ترمذی حدیث نمبر:۱۳۳۱)یعنی اس
حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے قاضیوں
کے لیے ایک رہنما اصول بتادیاکہ جب تک فریقِ ثانی
سے رجوع نہ کرلو، اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ دو؛ چنانچہ ہندوستان میں
امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ اور آل انڈیامسلم پرسنل
لابورڈ کے دارالقضاؤں میں اسی اصول پر عمل د رآمدہے۔ دارالقضاء
سے حصولِ فیصلہ کے لیے دعویٰ اور اپنے حق کی حصولیابی
کی درخواست قاضیِ شریعت سے کرنا ضروری ہے۔درخواست
آنے کے بعد فریقِ ثانی سے اس تعلق سے جواب طلب کیا جاتاہے، پھر
کوئی تاریخ متعین کرکے دونوں فریق کوروبرو بٹھاکر ہر ایک
کی بات سنی جاتی ہے۔اس کے بعدشریعت کے مطابق حتی
الامکان صلح کی کوشش کی جاتی ہے ، صلح ممکن نہ ہونے کی
صورت میں شرعی فیصلہ سے ہر فریق کو آگاہ کر دیاجاتاہے۔
بعض دفعہ فریقِ ثانی غائب
اورلاپتہ رہتاہے۔ یا سرکشی اور تعنت کی وجہ سے دارالقضاء
میں حاضر نہیں ہوتاہے۔اس طرح وہ صاحبِ حق کو اس کے جائز حق سے
محروم کرنے کی کوشش کرتاہے۔ایسی صورت میں چاروناچار
یکطرفہ فیصلہ کردیاجاتاہے۔ایک مظلومہ خاتون کی
درد بھری داستان جو اس نے زاروقطارروتی ہوئی دارالقضاء میں
بیان کی، ملاحظہ ہو:
شادی کے بعد سے ہی میرے
شوہر نے جہیز کا مطالبہ شروع کردیا ؛ حالاں کہ شادی کے موقع پر
گھر کامکمل سازوسامان تقریبادولاکھ کا دیاگیاتھا ، میرے
شوہر محترم کہتے تھے کہ دولاکھ روپئے نقد اپنے میکہ سے لے کر آو ؛تاکہ میں
کوئی تجارت کر سکوں ، جہیزنہ لانے پر میرے شوہر اور اس کے دیگر
رشتہ داروں نے خوب لعن وطعن کیا، گالم گلوچ کیا اور حد تو یہ
ہوگئی کہ عیدالفطرکے دن مجھے اس قدر ماراکہ سر سے خون نکلنے لگا۔محلہ
کے لوگوں نے مجھے بچایا تو میرے معززشوہر نے میری عزت سے
کھلواڑ کرتے ہوئے فوراً الزام لگادیاکہ تمہارا ان لوگوں سے ناجائز تعلق
ہے؛اس لیے وہ تمہاری حمایت کررہے ہیں۔ایسی
صورتِ حال میں اپنے میکہ میں آگئی۔ آج تک تقریباً
پانچ سال کا عرصہ گزر گیا، اس دوران میرے شوہر نے میری
کوئی خبر گیری نہیں لی، نہ کبھی مجھے لینے
کے لیے آئے اور نہ میرے معصوم بیٹے کی خیریت
معلوم کی۔تین سال قبل میں نے کورٹ سے رجوع کیا تو
محترم فاضل جج صاحب نے عارضی طور پر میرے اور میرے بیٹے
کا خرچہ صرف ایک سال تک دلوایا۔اس کے بعد سے میرے شوہرنے
کورٹ میں آنا بند کر دیانیز ہم دونوں ماں بیٹے کا خرچہ بھی
دینا بند کردیا۔ وکیل کی فیس تو اللہ کی
پناہ ! جتنا خرچہ میرے شوہر سے ملا تھا،اس کاڈَبل وکیل کی نذر
ہوگیا۔کورٹ میں صرف تاریخ پر تاریخ مل رہی تھی۔
میری ماں اورمیں صبح سے شام تک کورٹ کے احاطہ میں بیٹھی
رہتیں اور اخیر وقت میں معلوم ہوتا کہ اب آئند ہ تاریخ پیشی
پر آنا ہے۔کسی دن تو اچھاخاصہ وقت گزرنے کے بعد معلوم ہوتاکہ آج جج
صاحب تشریف ہی نہیں لائے ہیں۔میر ے شوہر کے
نام کئی بار وارنٹ بھی جاری ہوا، تو پولس والے کہتے ہیں
کہ ہم کیا کریں، وہ اپنے پتہ پرنہیں ہے، ہم کہاں سے ڈھونڈ کر
لائیں؟ ادھر میرے شوہر مجھے یہ کہلوابھیجتا کہ جو کرناہے
کرلے میرے خلاف! میرا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتاہے
، پولس والے تومیرے ہاتھ میں ہیں۔
یہ خاتون تقریباًپانچ سال سے
اپنے میکہ میں بے یارومددگارپڑی ہوئی ہے۔اس
کے والد کا انتقال ہوگیاہے۔اس کا شوہر نہ اسے طلاق دیتاہے اور
نہ عزت کے ساتھ اپنے گھر میں رکھتا ہے، اس کااور اس کے آٹھ سالہ بیٹے
کاخرچہ کون اٹھائے؟ اس کے میکہ والے بہت غریب ہیں۔ اس نے
کورٹ سے مایوس ہوکرمقدمہ کی پیروی کرناچھوڑ دیاہے،
جس کی بناء پر وہاں سے کیس خارج ہوگیا۔اب وہ دارالقضاء
آکر قاضی شریعت سے انصاف چاہتی ہے۔
دارالقضاء کی طرف سے اس کے شوہرکو
بذریعہ رجسٹری ڈاک اطلاع دیکراس سے جواب طلب کیاگیا،
تاکہ دونوں کی بات سن کر کوئی رائے قائم کی جاسکے۔ اس نے
پہلی اطلاع وصول کی۔ اس کے بعد کئی اطلاعات اس کے نام جاری
کی گئیں؛ لیکن اس نے وصول نہیں کی اورنہ مقدمہ کی
پیروی کی۔ اب آپ کی عدالت اس بارے میں کیافیصلہ
کرے گی؟ واضح رہے کہ لڑکی کی عمر شادی کے وقت ۱۸/سال
تھی اور اب ۲۹/سال ہے۔اس کی جوانی ڈھلتی
جارہی ہے۔
یہ تو ہم نے نمونہ کے طور پر صرف ایک
مثال دی ورنہ آج سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسی خواتین
ہیں، جن کے شوہر ان کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہیں،نان ونفقہ سے محروم
رکھتے ہیں، ذہنی اور جسمانی تکلیف دیتے ہیں،اگر
ایسی عورتیں کورٹ سے رجوع ہوتی ہیں، توان کے لیے
کورٹ سے آسانی سے اپنامعاملہ حل کرانا، نہایت ہی دشوار ہوتاہے ۔
وکیلوں کی اتنی مہنگی فیس کہ بیچاری
عورت یہ سوچنے پر مجبورہوجاتی ہے کہ اتناخرچہ کرنے سے بہتر ہے کہ اسی
ظالم شوہر کے ساتھ کسی طرح گھٹ گھٹ کرزندگی گزارلی جائے؛ چنانچہ
بہت ساری ایسی عورتیں تکلیفوں کی تاب نہ لاکر
خود کُشی کر لیتی ہیں، جس کی خبریں ہم اخبار
میں پڑھتے رہتے ہیں۔نیز اگر جلدی فیصلہ
ہوجائے تو بھی غنیمت ہے ، ہماری عدالتوں کی سست رفتاری
کاحال یہ ہے کہ اگر کوئی نئی نویلی دلہن نے نفقہ کے
لیے یافسخ نکاح کے لیے یااپنے شوہرکے ظلم وستم سے نجات کے
لیے کیس دائر کرتی ہے، تو اس کا فیصلہ اس وقت آتاہے، جب
اس کی جوانی ڈھل چکی ہوتی ہے،اوراگر فریقِ ثانی
نے اپیل دائر کردی توپھر جوانی کیا ! بڑھاپا کے بعد بھی
امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس کی حیات ہی
میں فیصلہ آجائے۔اس کے برخلاف دارالقضاء میں زیادہ
سے زیادہ تین ماہ میں مقدمہ فیصل ہوجاتاہے۔ بہرحال
انصاف کے مہنگاہونے اورفیصلہ کے تاخیر سے آنے کی وجہ سے اس طرح
کی مظلوم عورتیں در در کی ٹھوکریں کھاتی پھر تی
ہیں۔کیاایسی عورتوں کوانصاف دلانا غیرقانونی
ہے؟ کیاایسی عورتوں کو ان کے ظالم شوہروں سے کم وقت میں
نجات دلاناہندوستانی عدلیہ پر احسان اوراس کا تعاون نہیں ہے؟ کیادارالقضاء
یعنی شرعی عدالتیں کورٹ پرسے اس کے بوجھ کو کم نہیں
کررہاہے؟کیایہ سوسائٹی کو پرامن اورپاکیزہ نہیں
بنارہا ہے؟
دارالقضاء (شرعی عدالت)کی اہمیت
کااندازہ ہندوستانی عدلیہ کی سست رفتاری کی درج ذیل
رپورٹ سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ جس میں بتایاگیاہے
کہ دسمبر تک جموں وکشمیر کے علاوہ دیگر ہندوستانی عدالتوں میں
کل 3,13,69,568 (تین کروڑ،تیرہ لاکھ،انہتر ہزار،پانچ سو اڑسٹھ) مقدمات
زیر التواء تھے:
سپریم کورٹ:58,519 (اٹھاون ہزار،
پانچ سو،انیس)
ہائی کورٹ: 43,24,742 (تینتالیس
لاکھ،چوبیس ہزار،سات سو، بیالیس)
سب اورڈینیٹ کورٹ:
2,69,86,307 (دوکروڑ،انہتر لاکھ،چھیاسی ہزار،تین سوسات)
کل: 3,13,69,568 (جموں کشمیر کے
علاوہ)
ان میں سے79,98,351 (اناسی
لاکھ، اٹھانوے ہزار،تین سو اکاون) مقدمات ایسے ہیں جو پانچ سال
سے زیادہ عرصہ سے زیر التواء ہیں۔
(Source: Report of National Management
Court System 2012) (NMCS)
ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۴۰ء
تک زیر التوامقدمات کی تعداد پندرہ کروڑ تک پہونچ جائے ہوجائے گی۔
(ٹائمس آف انڈیا ۱۷/جنوری ۲۰۱۳ء
)اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آندھرا پردیش کے چیف جسٹس وی، وی،
راوکہتے ہیں کہ زیر التواء مقدمات کوحل کرنے میں ہندوستانی
عدلیہ کو ۳۲۰سال لگیں گے۔(ٹائمس آف انڈیا۶/مارچ
۲۰۱۰ء) اس رپورٹ سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ
دارالقضاء کورٹ کاکس قدر معاون اوراس کے کاموں میں ہاتھ بٹانے والاہے۔
۲۰۰۵ء
میں وِشوالوچن مد ن نامی ایک غیر مسلم وکیل نے سپریم
کورٹ میں ایک عرضی دی جس میں آل انڈیامسلم
پرسنل لابورڈ ،دارالعلوم دیوبند،امارت شرعیہ پھلواری شریف
پٹنہ، مدھیہ پردیش اور اترپردیش حکومت کو مدعیٰ علیہم
بنایا۔ اس نے دارالافتاء اوردارالقضاء پر پاپندی عائد کرنے کی
درخواست کی ۔اس پر بیانات اورکافی بحث ومباحثہ کے بعد
مورخہ ۷/جولائی ۲۰۱۴ئکو سپریم کورٹ نے
عرضی گزارکی درخواست کو رد کر تے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ اس
طرح کے ادارے غیر قانونی نہیں ہیں؛چنانچہ کورٹ کایہ
اقتباس نہایت ہی اہم ہے:
It is not sanctioned under our
constitutional scheme. But this does not mean that existence of Dar-ul-Qaza or for that matter
practice of issuing Fatwas are themselves illegal. It
is informal justice delivery system with an objective of bringing about
amicable settlement between the parties. (Case No:386
Civil of 2005)
جس کاخلاصہ یہ ہے کہ نظامِ
دارالقضاء اگر چہ آئینی اسکیم کے تحت نہیں آتاہے؛ لیکن
اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ دارالقضاء چلانایا فتویٰ
دیناکوئی غیر قانونی کام ہے۔یہ تو ایک
غیر روایتی نظام ِعدل و انصاف ہے، جس کا مقصدد وفریق کے
درمیان دوستانہ ماحول میں مصالحت کراناہے۔
آج کل یہ پروپیگنڈہ کیاجارہاہے
کہ دارالقضاء ایک متوازی عدالت ہے، اوریہ لوگ اپنے فیصلوں
کو لوگوں پر تھوپتے ہیں؛حالاں کہ دارالقضاء کے پاس نہ قوت وطاقت ہے اور نہ
پولس وفوج، جن کے ذریعہ وہ اپنے فیصلوں پر لوگوں کو عمل کرائے،اورنہ
آج تک کسی قاضی یاکسی دارالقضاء نے کسی پراپنے فیصلے
پر عمل کرنے کے لیے دباوڈالاہے، اورنہ یہ ہندوستان، جیسے جمہوری
ملک میں ممکن ہے؛البتہ یہ مسلمانوں کا ایمانی تقاضہ ہے کہ
وہ جہاں کہیں بھی رہے شریعت کے آگے اپناسرِ تسلیم خم کردے۔قاضی
کے فیصلہ پر خوشی بخوشی عمل کرے، اس لیے کہ قاضی شریعت
کی اطاعت درحقیقت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی اطاعت ہے۔ قرآن کریم میں ہے: نہیں! (اے محمد…)
تمہارے رب کی قسم، یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے؛ جب تک کہ
اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کر نے والا تم کو(یاتمہارے نائبین اوروارثین)کو
نہ مان لیں،اور تم نے جو فیصلہ کیا اس پر اپنے دلوں میں
کوئی تنگی محسوس نہ کریں؛بلکہ فرمانبرداری کے ساتھ قبول
کر لیں۔لہٰذاشریعت کے اصول وضوابط کے مطابق مقررکردہ قاضیوں
کے فیصلوں کو قبول کرنااور ان پر عمل کرناشریعت کاحکم اورمسلمانوں کا
ایمانی تقاضہ ہے ۔اس کی خلاف ورزی دنیاوآخرت
میں خسارہ اور باعث گناہ ہے۔
$$$
-----------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11،
جلد:100 ، صفرالمظفر 1438 ہجری مطابق نومبر 2016ء